Sunday, January 15, 2017

https://www.mehdifoundation.com/latest/articles/khudai-fasad-aur-dawat-e-rabobiyat-e-gohar-shahi/

رب کا طالب اور جنت کا طالب دونوں کی منزل جنت ہی ہے :

جب میں رب الارباب کے حوالے سے گفتگو کرتا ہوں تواس وقت یہ ارادہ اور نیت نہیں ہوتی ہے کہ لوگوں کو یہ کہہ رہا ہوں کہ تم اللہ کو چھوڑ دو۔بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ ایک موقع فراہم ہو گیا ہے کہ جس کے ذریعےہماری جو زندگی ہےاسکی ہیت بدل سکتی ہےاور جوآخرت میں ٹھکانے دستیاب ہیں جن میں سے آپ نے اپنی محنت اور مقدر کے حساب سے کسی ایک کو اختیار کرنا ہے ان ٹھکانوں سے بہتر ٹھکانہ میسرآگیاہے۔سرکار سیدنا گوہر شاہی کی بارگاہ میں ظاہری طور پر سترہ اٹھارہ سال گزرارے۔جس دن سرکار گوہر شاہی سے نسبت قائم ہوئی اسوقت سے صحبت جاری ہے ۔غیبت میں جو چیز ہے وہ سرکار کا ظاہری وجود مبارک ہے جو آنکھوں سے اوجھل ہے لیکن جس کو صحبت کہتے ہیں وہ صحبت ظاہری نہیں ہوتی وہ باطنی صحبت ہوتی ہے جو کہ اصل اوردائمی ہے۔دو جملے سیدنا گو ھر شاہی کی گفتگو میں ابتدائی دور میں ایسے تھےکہ جن جملوں سے ذہن میں ایک سوالیہ نشان بن گیا۔ایک جملہ مرشد کے بارے میں اور دوسرا جملہ اللہ کے بارے میں۔
مرشد کے بارے میں :  ایک جملہ تو یہ تھا کہ ”مرشد کو پکڑنے کے لیئے ضروری ہے کہ آپ اسکو آزما لیں کیونکہ اللہ کو پانا مقصد ہے شخصیت کو پانا تو  مقصد نہیں ہے‘‘۔مرشد کو پکڑنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ اسکا اللہ سے تعلق ہے یا نہیں ہے۔کامل ہے یا نہیں ہے کیونکہ تم نے اللہ کو پانا ہے تو یہ دیکھ لو کہ مرشد اللہ سے واصل ہے یا نہیں ہے کیونکہ شخصیت کو پاناتمھارا مقصد نہیں ہے۔
اللہ کے بارے میں : ایک جملہ فرمایا کہ جب تم اللہ تعالی سے واصل ہو جاؤ گے تو وہ تم کو کسی جنت میں ہی بھیجے گا اپنے پاس تو نہیں بٹھائے گا۔
مرشد سے کہانی شروع ہوئی تو معلوم یہ ہوا کہ مرشد کو شخصیت حاصل کرنے کے لیئے نہیں بلکہ اللہ کو حاصل کرنے کے لیئے مرشد اختیار کرتے ہیں تو دیکھ لو کہ اسکا تعلق اللہ سے ہے یا نہیں ہے۔تو منزل وہاں پر یہ ثابت ہوئی کہ اللہ ہے اور جب اللہ تک پہنچ گئے تو پھر ایک نئی بات پتا چلی کہ بھئی اللہ تم کو اپنے پاس تو نہیں بٹھائے گا تمکو کسی جنت میں ہی بھیجے گا۔ان چیزوں سے دو چیزیں سمجھ میں آئیں کہ مرشد کو پکڑ بھی لے آدمی اوراسکی شخصیت سے کوئی تعلق نہ ہو،کتنی کھوکھلی سی بات ہے اور ساری زندگی اللہ کو حاصل کرنے میں لگا دے اور پھر اللہ اسکو پاس نہ بٹھائے بلکہ اسکو کسی جنت میں بھیج دے۔کتنی کھوکھلی بات ہےکہ مرشد اختیار کرلے اور مرشد سے کوئی تعلق ہی نا رکھے صرف اللہ کے لیئے ملتا رہے مرشد سے تو کتنا کھوکھلا پیار ہو گا۔اور ساری زندگی اللہ کو حاصل کرنے میں لگا دے اور آخر میں اللہ اسکو اپنے پاس نا بٹھائے اسکو کسی جنت میں بھیج دے ،معلوم ہوا یہ بھی بڑا کھوکھلا نظام ہے ۔جب ہم اللہ کو حاصل کرنے جاتے ہیں ایک حدیث شریف میں آیا کہ
طالب الدنیا مخنّث و طالب العقبی مونث و طالب المولی مذکّر
کہ جو دنیا کا طالب ہے وہ ہیجڑا ہے اور جو جنت کا طالب ہے وہ مثل عورت ہے اور جو مولا کا طالب ہے وہ مذکر ہے۔اب مولا کی طلب ہو گئی اللہ کو حاصل کر کےاور اسکے بعد آپ اُسے جنت میں بھیج دیں تو جنت کے لیئے تو آپ نے فرمایا ہے کہ وہ مثل ِعورت ہے جو جنت کا طالب ہے۔اور جو مولا کا طالب ہے جسکو آپ مرد کہہ رہے ہیں اسکو بھی وہیں بھیج رہے ہیں۔اب اللہ میا ں کی یہ باتیں جب مولویوں سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ارے ارے یہ مت کہو۔
سرکار گوہر شاہی نے جو لمحہ فکر عطا فرمایا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ یہ محبت و عشق کا کھیل ہے۔عشق میں نا تُو خدا ہے نہ میں بندہ ہوں عشق میں برابری ہوتی ہے ۔تو لوگ پھر اللہ سے ڈر کیوں رہے ہیں اگر برابری کے دین میں چل رہے ہیں تو جنت ودوزخ سے لینا دینا نہیں ہے ،عشق کرنا ہے رب سے تو پھر ڈرکیوں رہے ہیں ۔برابری کاکھیل ہونا چاہیے، یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ اللہ ہمیشہ یاد رکھےکہ آپ مٹی سے بنے ہوئے انسان ہیں اور اللہ ہمیشہ یہ یاد رکھے کہ وہ آپ کا بنانے والا ہے تو پھر عشق کہاں ہو گا۔اگر اللہ میاں یہ یاد رکھیں گے عشق میں کہ وہ خدا ہیں اور بندہ یہی یاد رکھے گا کہ آپ خدا ہیں اُسکے، تو پھر آپ عشق کہاں کریں گے۔کیونکہ عشق میں تو برابری ہے ۔

انسان کو اللہ نے چاہت کا اختیار نہیں دیا:

سیدنا گوہر شاہی جو پیغام لے کر آئےہیں وہ عشق ہے۔محمد رسول اللہ تک محبت الہی کا ذکر ضرور ہے لیکن اُسمیں اتنا بتایا گیا ہے کہ یہ فلاں کام کر لو تو پھر اللہ خود ہی محبت کر لے گا۔محبت کیسےکی جاتی ہے یہ نہیں بتایاگیا۔مثلاً کوئی بچی اگر یہ کہے اپنے ماں باپ کو کہ مجھے کیک بنانا سیکھنا ہے ۔بیٹا کیا کرو گی کیک بنا کے ؟ کھاؤں گی۔اور ماں چالاکی سے کام لے ،اور اسکو باہر سے کیک لا کر دے دے ،تو کیک تو وہ کھا لے گی لیکن اسے بنانا کبھی بھی نہیں آئے گا۔نبیوں کے نام پر،اللہ کے نام پر ،قرآن کے نام پہ دھونس جمانے والوں اپنے قرآنوں میں ،اپنے بائبلوں میں ،اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھومحبت کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟ کہاں لکھا ہے !! انسان کو اختیار ہی نہیں دیا گیا کہ وہ بھی اپنی چاہت سے محبت کر لے۔امام الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں قرآن نے یہ کہہ دیا
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
سورۃ آل عمران آیت نمبر31
ترجمہ : (اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا ۔
اے محمد ؐ! جب کوئی آپکےپاس یہ کہنے کے لیئے آئے کہ میں اللہ سے محبت کرنا چاہتاہوں، تو کیاکہنا،کہ میری اتباع کر لو ۔یہ نہیں کہا کہ محبت کرنے کا طریقہ سکھا دینا۔ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ یا رسول اللہ جو اللہ سے محبت کرنا چاہتا ہےآپ اسکو اللہ سے محبت کرنے کا طریقہ سکھا دیں تاکہ وہ اللہ سے محبت کرنے لگ جائےقُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ اگر کوئی اللہ سے محبت کرنا چاہے تو اسکو اللہ سے محبت کرنے کا طریقہ سکھا دو۔یہ نہیں ہوا ۔کیا فرمایا قرآن میں قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِيتو میری اتباع کر لو۔نتیجہ کیا نکلے گا،یہ بھی نہیں کہ بھئی اتباع کرنے سے ہمیں خود بخود اللہ سے محبت ہو جائے گی۔نہیں پھر آگے قرآن میں لکھ دیا يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ  للہ خود اُس سے محبت کرنے لگ جائے گا۔

Monday, December 19, 2016

فتح مکہ سے پہلے خانہ کعبہ میں جو بت موجود تھے ان میں بہت سارے انبیاء کرام کے بت بھی تھے جو اُن کے ماننے والی قوموں نے یادگار کے طور پر بنائے تھے۔وہاں ابراہیم ؑ کا بت بھی رکھا ہوا تھا ۔اس سے کیا پتہ چلتا ہے کہ وہ یہودی تھے جنہوں نے ابراہیم ؑکا بت بنایا تھا ہندوؤں نے نہیں بنایا تھا وہ بت ۔ہندوؤں کاکیا کام ابراہیم ؑ سے ،ہندوؤں کا تعلق تو شنکر بھگوا ن سے ،گنیش جی سے ،گو ؤ ماتا سے ہے۔ اسماعیل ؑ کا بھی بت وہاں رکھا ہوا تھا تو اسکا مطلب ہے کہ اسماعیل ؑ کی امت نے بھی ان کی محبت ، ان کی یاد میں اُن کا بت بنا کہ وہاں رکھ دیا ۔
خانہ کعبہ میں لات اور منات کے بھی بت تھے اس کو اردو میں لات و منات کہتے ہیں لیکن عربی میں اسکو کو’’ لا اور منا ‘‘ پڑھا جاتا ہے۔ایک لفظ’’ اللہ‘‘ تو سریانی کا ہے اور یہ رب کی طرف اشارہ ہے ۔ ایک لفظ’’ اللا‘‘ عربی کا ہے ۔عربی میں کسی خاص چیز کے لیئے’’ الف ‘‘ اور’’ ل ‘‘ آگے لگاتے ہیں ۔وہ جو خانہ کعبہ میں بت رکھا ہوا تھا ’’ لا‘‘ اسکی خصوصیت کی وجہ سے اس ’’ ل ‘‘ کے آگے بھی الف لگتا تھا اسکو یہ پڑھتے تھے ’’اللا‘‘ ۔ایک سریانی زبان میں ’’اللہ‘‘ ہےجو رب کی طرف اشارہ ہے اور ایک ہے ’’ اللا‘‘ یہ عربی زبان کا ہے۔ ’’اللا‘‘یہ عربی لفظ ہے اسکا اشارہ ان بتوں کی طرف تھا جو ’’لا ‘‘ بت تھا ۔
’’ لا اور منا ‘‘ دو ایسی ہستیاں تھیں ،’’منا‘‘ عورت تھی’’ لا ‘‘ مرد تھا ۔’لا‘ میں جو روح تھی وہ روح وہی تھی جو اللہ کے وجود سے جرثومہ نکل کے بنتی تھی ۔اللہ کے وجود سے جرثومہ نکل کے جو روح بن جائے اور پھروہ زمین پہ آ کر کسی کے جسم میں مقیم ہو جائے تو پھر وہ ’’دیوی اور دیوتا ‘‘کہلاتے ہیں ۔’’لا اور منا‘ ‘نے بڑی کرامتیں اور معجزے دکھائے تھے انہوں نے لوگوں کو اللہ کے راستے پرہی ڈالا تھا۔ لیکن بعد میں جب وہ اس دنیا سے چلے گئے تو لوگوں نے ان کے بت بنا کر کھڑے کر دئیے تو اُن لوگوں کی مخالفت کےبجائے سب کچھ غلط کہہ دیا گیا ۔
اسی طرح ایک عورت اور مرد کعبے میں سیکس کر رہے تھے تو لوگوں نے ان کو مار کے بھگا دیا ۔ان کے ماننے والے آئے اور انہوں نے ان کے بت بنا کے کعبے میں رکھ دئیے ، انکی بھی پوجا ہونے لگ گئی ۔لیکن ہم کو جو پتہ چلا وہ یہ تھا کہ جو یہودیوں نے بت بنایا ابراہیم ؑکا یہ انہوں نے عبادت کےلئے نہیں بلکہ یاد گار کے لیے بنا کہ رکھا تھا ۔ہم نے پھر حضور پاک ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ ابراہیم کا ،اسماعیل ؑ کا بت تڑوانے کی کیا ضرورت تھی؟ تو جواب ملا کہ جب ابراہیم کا بت جو ہو بہو انکی صورت پہ بنایا ،اسکی عبادت نہیں کرتے تھے بس یادگار کے لیئے رکھا تھا ۔اسماعیل ؑ کے ماننے والے جن کے لیئے قرآن مجید میں دعاہے ۔ابراہیم ؑنے اللہ تعالی سے دعا مانگی تھی کہ اسماعیل ؑ سے ایک ایسی قوم پیدا فرما جو تیری وفادار ہو، اسی نسل سے پھر حضور پاک ﷺ تشریف لائے ۔ یہ وہی نسل ہے جس نے اسماعیل ؑ کا بھی بت بنا کر رکھا جبکہ ان کے لیئے تو ابراہیم ؑ نے دعا کی تھی کہ وہ پاک صاف رہیں گے تو پھر اسماعیل کا بت کس نے بنایا؟ پھر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جب فتح مکہ ہو گئی اور جب پھر خانہ کعبہ میں داخل ہو گئے تو حضور ﷺنے جو بتوں کو توڑاتو اسکا ایک طریقہ اختیار فرمایا تھا ۔ آپ ﷺ بتوں کے پاس جاتے اور ایک آیت پڑھتے کہ

قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا
سورة الااسراء آیت نمبر 81
ترجمہ : حق آ گیا ہے اور باطل جائے گااور باطل تو جانے کےلئے ہی ہے۔
جب حضور ﷺ بت کے سامنے جا کہ یہ آیت پڑھتے تو اگر اسکے اندر کوئی شیطان جن ہوتا تو نکل جاتا ۔پھر حضور پاکؐ فرماتے کہ اب یہ بت توڑ دو اور اگر آیت پڑھنے کے باوجود جس بت میں سے شیطان جن نہیں نکلتا تھا بلکہ نور نکلتا تو اسکے لیے فرماتے اسکو رہنے دو۔حضور پاک ؐ تو یہ فرما کے چلے گئے پھر اسکے بعد یہ جو تمہارے سب سے اعلی عمر بن خطاب تھے انہوں نے کہا کہ سب بت توڑ دو ،پتہ نہیں یہ حجر ِ اسود کیسے بچ گیا حضور ﷺ آ گئے اس موقع پر ورنہ وہ اسکو بھی توڑ دیتے ۔حضر ت عمر کے دل میں یہ کھٹکا تھا کہ یہ 360 بتوں میں سے یہ ایک حجر ِاسود کو کیوں چھوڑ دیا ہے ، اسکو کیوں نہیں توڑا ؟ زمانہ جاہلیت میں بھی اسکی پوجا ہوتی تھی۔تب ہی تو ان کے ذہن میں وہ بات آئی کہ’’ اے حجر ِ اسود مجھ پتہ ہے کہ تو بے کار چیز ہے فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا سکتا میں تو بس اس لیئے دوں گا بوسہ کہ حضور پاک ؐ نے دیا ہے ورنہ لوگ کہیں گے کہ یہ حضور کا گستاخ ہے ،حضور ؐ کی بات نہیں سن رہا ، ان کی سنت پر عمل پیرانہیں ہو رہا ۔ اس لئے میں بوسہ دوں گا۔
’’بہت سارے انبیاء کرام کے خانہ کعبہ میں مجسمے بنے ہوئے تھے اگر وہ نہ توڑتے تو ان کو دیکھ کر آپ اندازہ لگا سکتے تھے کہ وہ انبیا ایسے تھے‘‘
یہ جو تم نے شیطان کا کہہ کر ایک مینار سا کھڑا کیا ہوا ہے وہ بھی تو بت ہے شیطان کا۔ وہ شیطان تو نہیں ہے ، بس یادگار ہے کہ یہاں شیطان تھا۔ اسی طرح وہ خانہ کعبہ میں موجود مجسمہ (بت) بھی یادگار تھے۔ جیسے مقام ِ ابراہیم ہے جہاں ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیلؑ کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ بنایا ،وہ بھی یادگار ہے نا۔اب الصفا والمروۃ پر جو آپ بھاگتے ہیں وہ بھی یادگا ر ہےنا کہ بی بی حاجرہ ؓ وہاں پانی کی تلاش میں بھاگی تھی اور آپ کو بھی بھاگنا پڑتا ہے تیز دوڑ کے جانا پڑتا ہے، کیونکہ بی بی حاجرہ تیز تیز دوڑ کے گئی تھیں اگر ایسا نہیں کریں گے تو مناسک ِ حج قبول نہیں ہوں گے کیونکہ وہ بھاگی تھیں ،انکے بھاگنے کی ادا بھی آپ نے اپنا لی اور آپ کے لئے عبادت ہو گئی ۔جہاں کھڑے ہوئے تھے وہ جگہ بھی مقدس ہو گئی ۔شیطان نے جس جگہ آکر دھوکہ دیا، آپ نے اس جگہ اسکا بت بنا کہ پتھر مار رہے ہو ،ابراہیم ؑ کا جو مجسمہ بنایا تھا اسکے اندر کیاکفر اور شرک تھا ؟ خالد بن دلید ؓ نے جب ایک بت پہ تلوار چلائی تو اسمیں سے چنگھاڑتی ہوئی آگ نکلی وہ ڈر گئے آپ ﷺ کو بتایا تو آپؐ نے فرمایا کہ شیطان جن ان بتوں میں گھسے ہوئے ہیں ، تم گھبراؤ نہیں بس اس آیت کا ورد کرتےرہو ’’ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ ‘‘تو خالد بن ولید جب اس آیت کا ورد کرتےتو جہاں حق ہوتا وہاں سے کچھ نہیں ہوتا ، بلکہ نور نکلتا ۔جہاں باطل ہوتا وہاں سے آگ نکلتی ۔
پھر خانہ کعبہ میں حضرت بلال کو اوپر چڑھا دیا کہ صفائی کرو ۔اب جب نماز کا وقت آیا تو حضور ؐ نے بلال کو حکیم دیا کہ اذان دو ۔ بلال حبشی پریشان ہو گئے کہ کعبے کے اوپر کھڑا ہوں اور ہم کعبے کی طرف منہ کر کے اذان دیتے ہیں ۔ تو انہوں نے حضور ؐ سے استفسار کیا کہ میں تو کعبے کے اوپر کھڑا ہوا ہوں ، اب کس طرف منہ کر کے اذان دوں ؟ تو آپؐ نے فرمایا میری طرف منہ کر کے اذان دو ۔یہ ہے محمد رسول اللہ کی شان ۔ اب یہ جو وہابی کہتے ہیں کہ نماز میں حضور ؐ کا خیال آ جائے تو نماز فاسد ہو جاتی ہے ۔ لیکن حضور ؐ کا تو حکم ہے کہ جب کعبے پر چڑھے ہو تو میری طرف منہ کر کے اذان دو ۔ محمد کا حکم ہے کہ محمد کی طرف منہ کر کے اذان دو ۔ اب محمد ؐ کی طرف منہ کر کے اَذان دی جا سکتی ہے تو کیا نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔محمد ؐ کی اطاعت اور اتباع یہی تو اصل اسلام ہے ۔جس میں محمد ؐ کا عشق نہ ہو ، اتباع نہ ہو ، اطاعت نہ ہو وہ اسلام نہیں بکواس ہے ۔

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ
سورة آل عمران آیت نمبر 31
جو حضور ؐ سے محبت کرنا چاہتے ہیں تو محمدؐ کی اتباع میں آ جائیں ، آپ کے رنگ میں رنگ جائیں ۔ تو اللہ خود اُن سے محبت کرے گا۔
نوٹ: یہ راز نمائندہ مہدی سیدی یونس الگوہر کی بارگاہ سے عطا ہوا ہے۔ یہ علم کسی کتاب میں موجود نہیں ہے۔ اگر کسی کو اس پر اعتراض ہے تو رد کر کے دکھائے۔

Sunday, December 18, 2016

https://youtu.be/w0E8tcMpR6w

Asia Today - Primary Objective of Religion: to Connect with God

In Asia Today’s November issue, an article by CEO of Messiah Foundation International, His Holiness Younus AlGohar, ‘Primary Objective of Religion: to Connect with God,’ was published. 
In this piece, His Holiness explains the main reason one practises a religion and why pure spirituality is what we need today.
The Asia Today is a monthly publication which caters to the South Asian community. It is based in Arizona, USA. Read its November edition here.

Happy Holidays! A Special Message from MFI

2 weeks ago

The festive season is once again upon us! It is that time of the year when the streets and homes are lit up. During this time, Christmas and Hanukkah are celebrated by Christians and Jews respectively. This year, 12 Rabi ul Awwal will also be celebrated by Muslims during the holidays. 
It is unfortunate that the holidays have become a highly commercialised affair. The spiritual significance of these occasions has been practically forgotten in the modern era. They have become events where the main attractions are the delicious food and the exchange of gifts.
Hanukkah celebrates the triumphant restoration of the Second Temple as a Jewish sacred worship place. Christmas is a celebration of the advent of Lord Jesus Christ in this world. 12 Rabi ul Awwal marks the birthday of the Prophet Mohammad.
You partake in festivities, but the true inner happiness of these events will manifest in you once you are spiritually connected with the Lord.  
So this year, think about your relationship with the Lord. Using the method offered by Mehdi/Messiah Foundation International, you can light up your heart with divine energy, just as you light up your homes during the holiday season! 
Make every day a celebration with the Goharian Philosophy of Divine Love.