رب کا طالب اور جنت کا طالب دونوں کی منزل جنت ہی ہے :
جب میں رب الارباب کے حوالے سے گفتگو کرتا ہوں تواس وقت یہ ارادہ اور نیت نہیں ہوتی ہے کہ لوگوں کو یہ کہہ رہا ہوں کہ تم اللہ کو چھوڑ دو۔بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ ایک موقع فراہم ہو گیا ہے کہ جس کے ذریعےہماری جو زندگی ہےاسکی ہیت بدل سکتی ہےاور جوآخرت میں ٹھکانے دستیاب ہیں جن میں سے آپ نے اپنی محنت اور مقدر کے حساب سے کسی ایک کو اختیار کرنا ہے ان ٹھکانوں سے بہتر ٹھکانہ میسرآگیاہے۔سرکار سیدنا گوہر شاہی کی بارگاہ میں ظاہری طور پر سترہ اٹھارہ سال گزرارے۔جس دن سرکار گوہر شاہی سے نسبت قائم ہوئی اسوقت سے صحبت جاری ہے ۔غیبت میں جو چیز ہے وہ سرکار کا ظاہری وجود مبارک ہے جو آنکھوں سے اوجھل ہے لیکن جس کو صحبت کہتے ہیں وہ صحبت ظاہری نہیں ہوتی وہ باطنی صحبت ہوتی ہے جو کہ اصل اوردائمی ہے۔دو جملے سیدنا گو ھر شاہی کی گفتگو میں ابتدائی دور میں ایسے تھےکہ جن جملوں سے ذہن میں ایک سوالیہ نشان بن گیا۔ایک جملہ مرشد کے بارے میں اور دوسرا جملہ اللہ کے بارے میں۔
مرشد کے بارے میں : ایک جملہ تو یہ تھا کہ ”مرشد کو پکڑنے کے لیئے ضروری ہے کہ آپ اسکو آزما لیں کیونکہ اللہ کو پانا مقصد ہے شخصیت کو پانا تو مقصد نہیں ہے‘‘۔مرشد کو پکڑنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ اسکا اللہ سے تعلق ہے یا نہیں ہے۔کامل ہے یا نہیں ہے کیونکہ تم نے اللہ کو پانا ہے تو یہ دیکھ لو کہ مرشد اللہ سے واصل ہے یا نہیں ہے کیونکہ شخصیت کو پاناتمھارا مقصد نہیں ہے۔
اللہ کے بارے میں : ایک جملہ فرمایا کہ جب تم اللہ تعالی سے واصل ہو جاؤ گے تو وہ تم کو کسی جنت میں ہی بھیجے گا اپنے پاس تو نہیں بٹھائے گا۔
مرشد سے کہانی شروع ہوئی تو معلوم یہ ہوا کہ مرشد کو شخصیت حاصل کرنے کے لیئے نہیں بلکہ اللہ کو حاصل کرنے کے لیئے مرشد اختیار کرتے ہیں تو دیکھ لو کہ اسکا تعلق اللہ سے ہے یا نہیں ہے۔تو منزل وہاں پر یہ ثابت ہوئی کہ اللہ ہے اور جب اللہ تک پہنچ گئے تو پھر ایک نئی بات پتا چلی کہ بھئی اللہ تم کو اپنے پاس تو نہیں بٹھائے گا تمکو کسی جنت میں ہی بھیجے گا۔ان چیزوں سے دو چیزیں سمجھ میں آئیں کہ مرشد کو پکڑ بھی لے آدمی اوراسکی شخصیت سے کوئی تعلق نہ ہو،کتنی کھوکھلی سی بات ہے اور ساری زندگی اللہ کو حاصل کرنے میں لگا دے اور پھر اللہ اسکو پاس نہ بٹھائے بلکہ اسکو کسی جنت میں بھیج دے۔کتنی کھوکھلی بات ہےکہ مرشد اختیار کرلے اور مرشد سے کوئی تعلق ہی نا رکھے صرف اللہ کے لیئے ملتا رہے مرشد سے تو کتنا کھوکھلا پیار ہو گا۔اور ساری زندگی اللہ کو حاصل کرنے میں لگا دے اور آخر میں اللہ اسکو اپنے پاس نا بٹھائے اسکو کسی جنت میں بھیج دے ،معلوم ہوا یہ بھی بڑا کھوکھلا نظام ہے ۔جب ہم اللہ کو حاصل کرنے جاتے ہیں ایک حدیث شریف میں آیا کہ
مرشد کے بارے میں : ایک جملہ تو یہ تھا کہ ”مرشد کو پکڑنے کے لیئے ضروری ہے کہ آپ اسکو آزما لیں کیونکہ اللہ کو پانا مقصد ہے شخصیت کو پانا تو مقصد نہیں ہے‘‘۔مرشد کو پکڑنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ اسکا اللہ سے تعلق ہے یا نہیں ہے۔کامل ہے یا نہیں ہے کیونکہ تم نے اللہ کو پانا ہے تو یہ دیکھ لو کہ مرشد اللہ سے واصل ہے یا نہیں ہے کیونکہ شخصیت کو پاناتمھارا مقصد نہیں ہے۔
اللہ کے بارے میں : ایک جملہ فرمایا کہ جب تم اللہ تعالی سے واصل ہو جاؤ گے تو وہ تم کو کسی جنت میں ہی بھیجے گا اپنے پاس تو نہیں بٹھائے گا۔
مرشد سے کہانی شروع ہوئی تو معلوم یہ ہوا کہ مرشد کو شخصیت حاصل کرنے کے لیئے نہیں بلکہ اللہ کو حاصل کرنے کے لیئے مرشد اختیار کرتے ہیں تو دیکھ لو کہ اسکا تعلق اللہ سے ہے یا نہیں ہے۔تو منزل وہاں پر یہ ثابت ہوئی کہ اللہ ہے اور جب اللہ تک پہنچ گئے تو پھر ایک نئی بات پتا چلی کہ بھئی اللہ تم کو اپنے پاس تو نہیں بٹھائے گا تمکو کسی جنت میں ہی بھیجے گا۔ان چیزوں سے دو چیزیں سمجھ میں آئیں کہ مرشد کو پکڑ بھی لے آدمی اوراسکی شخصیت سے کوئی تعلق نہ ہو،کتنی کھوکھلی سی بات ہے اور ساری زندگی اللہ کو حاصل کرنے میں لگا دے اور پھر اللہ اسکو پاس نہ بٹھائے بلکہ اسکو کسی جنت میں بھیج دے۔کتنی کھوکھلی بات ہےکہ مرشد اختیار کرلے اور مرشد سے کوئی تعلق ہی نا رکھے صرف اللہ کے لیئے ملتا رہے مرشد سے تو کتنا کھوکھلا پیار ہو گا۔اور ساری زندگی اللہ کو حاصل کرنے میں لگا دے اور آخر میں اللہ اسکو اپنے پاس نا بٹھائے اسکو کسی جنت میں بھیج دے ،معلوم ہوا یہ بھی بڑا کھوکھلا نظام ہے ۔جب ہم اللہ کو حاصل کرنے جاتے ہیں ایک حدیث شریف میں آیا کہ
طالب الدنیا مخنّث و طالب العقبی مونث و طالب المولی مذکّر
کہ جو دنیا کا طالب ہے وہ ہیجڑا ہے اور جو جنت کا طالب ہے وہ مثل عورت ہے اور جو مولا کا طالب ہے وہ مذکر ہے۔اب مولا کی طلب ہو گئی اللہ کو حاصل کر کےاور اسکے بعد آپ اُسے جنت میں بھیج دیں تو جنت کے لیئے تو آپ نے فرمایا ہے کہ وہ مثل ِعورت ہے جو جنت کا طالب ہے۔اور جو مولا کا طالب ہے جسکو آپ مرد کہہ رہے ہیں اسکو بھی وہیں بھیج رہے ہیں۔اب اللہ میا ں کی یہ باتیں جب مولویوں سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ارے ارے یہ مت کہو۔
سرکار گوہر شاہی نے جو لمحہ فکر عطا فرمایا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ یہ محبت و عشق کا کھیل ہے۔عشق میں نا تُو خدا ہے نہ میں بندہ ہوں عشق میں برابری ہوتی ہے ۔تو لوگ پھر اللہ سے ڈر کیوں رہے ہیں اگر برابری کے دین میں چل رہے ہیں تو جنت ودوزخ سے لینا دینا نہیں ہے ،عشق کرنا ہے رب سے تو پھر ڈرکیوں رہے ہیں ۔برابری کاکھیل ہونا چاہیے، یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ اللہ ہمیشہ یاد رکھےکہ آپ مٹی سے بنے ہوئے انسان ہیں اور اللہ ہمیشہ یہ یاد رکھے کہ وہ آپ کا بنانے والا ہے تو پھر عشق کہاں ہو گا۔اگر اللہ میاں یہ یاد رکھیں گے عشق میں کہ وہ خدا ہیں اور بندہ یہی یاد رکھے گا کہ آپ خدا ہیں اُسکے، تو پھر آپ عشق کہاں کریں گے۔کیونکہ عشق میں تو برابری ہے ۔
سرکار گوہر شاہی نے جو لمحہ فکر عطا فرمایا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ یہ محبت و عشق کا کھیل ہے۔عشق میں نا تُو خدا ہے نہ میں بندہ ہوں عشق میں برابری ہوتی ہے ۔تو لوگ پھر اللہ سے ڈر کیوں رہے ہیں اگر برابری کے دین میں چل رہے ہیں تو جنت ودوزخ سے لینا دینا نہیں ہے ،عشق کرنا ہے رب سے تو پھر ڈرکیوں رہے ہیں ۔برابری کاکھیل ہونا چاہیے، یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ اللہ ہمیشہ یاد رکھےکہ آپ مٹی سے بنے ہوئے انسان ہیں اور اللہ ہمیشہ یہ یاد رکھے کہ وہ آپ کا بنانے والا ہے تو پھر عشق کہاں ہو گا۔اگر اللہ میاں یہ یاد رکھیں گے عشق میں کہ وہ خدا ہیں اور بندہ یہی یاد رکھے گا کہ آپ خدا ہیں اُسکے، تو پھر آپ عشق کہاں کریں گے۔کیونکہ عشق میں تو برابری ہے ۔
انسان کو اللہ نے چاہت کا اختیار نہیں دیا:
سیدنا گوہر شاہی جو پیغام لے کر آئےہیں وہ عشق ہے۔محمد رسول اللہ تک محبت الہی کا ذکر ضرور ہے لیکن اُسمیں اتنا بتایا گیا ہے کہ یہ فلاں کام کر لو تو پھر اللہ خود ہی محبت کر لے گا۔محبت کیسےکی جاتی ہے یہ نہیں بتایاگیا۔مثلاً کوئی بچی اگر یہ کہے اپنے ماں باپ کو کہ مجھے کیک بنانا سیکھنا ہے ۔بیٹا کیا کرو گی کیک بنا کے ؟ کھاؤں گی۔اور ماں چالاکی سے کام لے ،اور اسکو باہر سے کیک لا کر دے دے ،تو کیک تو وہ کھا لے گی لیکن اسے بنانا کبھی بھی نہیں آئے گا۔نبیوں کے نام پر،اللہ کے نام پر ،قرآن کے نام پہ دھونس جمانے والوں اپنے قرآنوں میں ،اپنے بائبلوں میں ،اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھومحبت کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟ کہاں لکھا ہے !! انسان کو اختیار ہی نہیں دیا گیا کہ وہ بھی اپنی چاہت سے محبت کر لے۔امام الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں قرآن نے یہ کہہ دیا
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
سورۃ آل عمران آیت نمبر31
ترجمہ : (اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا ۔
اے محمد ؐ! جب کوئی آپکےپاس یہ کہنے کے لیئے آئے کہ میں اللہ سے محبت کرنا چاہتاہوں، تو کیاکہنا،کہ میری اتباع کر لو ۔یہ نہیں کہا کہ محبت کرنے کا طریقہ سکھا دینا۔ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ یا رسول اللہ جو اللہ سے محبت کرنا چاہتا ہےآپ اسکو اللہ سے محبت کرنے کا طریقہ سکھا دیں تاکہ وہ اللہ سے محبت کرنے لگ جائےقُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ اگر کوئی اللہ سے محبت کرنا چاہے تو اسکو اللہ سے محبت کرنے کا طریقہ سکھا دو۔یہ نہیں ہوا ۔کیا فرمایا قرآن میں قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِيتو میری اتباع کر لو۔نتیجہ کیا نکلے گا،یہ بھی نہیں کہ بھئی اتباع کرنے سے ہمیں خود بخود اللہ سے محبت ہو جائے گی۔نہیں پھر آگے قرآن میں لکھ دیا يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ للہ خود اُس سے محبت کرنے لگ جائے گا۔